مواد فوراً دِکھائیں

پاک کلام میں مُردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے حوالے سے کیا بتایا گیا ہے؟‏

پاک کلام میں مُردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے حوالے سے کیا بتایا گیا ہے؟‏

پاک کلام کا جواب

 بائبل میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏زندہ ہونا“‏ یا ”‏جی اُٹھنا“‏ کِیا گیا ہے، وہ ”‏اناستاسس“‏ ہے اور اِس کا لفظی مطلب ”‏اُٹھانا“‏ یا ”‏دوبارہ اُٹھنا“‏ ہے۔ جس شخص کو مُردوں میں سے زندہ کِیا جاتا ہے، اُس کی زندگی ویسے ہی شخص کے طور پر بحال کی جاتی ہے جیسا وہ مرنے سے پہلے تھا۔—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏12، 13‏۔‏

 بائبل میں یونانی صحیفوں (‏جنہیں نیا عہدنامہ کہا جاتا ہے)‏ کے ساتھ ساتھ عبرانی صحیفوں (‏جنہیں پُرانا عہدنامہ کہا جاتا ہے)‏ میں بھی مُردوں کے جی اُٹھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر خدا نے ہوسیع نبی کے ذریعے یہ وعدہ کِیا:‏ ”‏مَیں اُنہیں قبر کے قابو سے چھڑا دوں گا؛ اور اُنہیں موت سے نجات دوں گا۔“‏­—‏ہوسیع 13:‏14‏، نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ یسعیاہ 26:‏19؛‏ دانی‌ایل 12:‏2،‏ 13‏۔‏

 مُردوں کو کہاں زندہ کِیا جائے گا؟‏ کچھ لوگوں کو آسمان پر یسوع مسیح کے ساتھ بادشاہوں کے طور پر حکمرانی کرنے کے لیے زندہ کِیا جاتا ہے۔ (‏2-‏کُرنتھیوں 5:‏1؛‏ مکاشفہ 5:‏9، 10‏)‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ یہ لوگ ”‏سب سے پہلے زندہ“‏ ہوتے ہیں۔ (‏مکاشفہ 20:‏6؛‏ فِلپّیوں 3:‏11‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ اِن کے بعد اَور لوگوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا۔ اور وہ لاتعداد لوگ زمین پر زندگی سے لطف اُٹھائیں گے۔—‏زبور 37:‏29‏۔‏

 مُردوں کو کیسے زندہ کِیا جاتا ہے؟‏ خدا نے یسوع مسیح کو مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت بخشی ہے۔ (‏یوحنا 11:‏25‏)‏ یسوع مسیح اُن سب لوگوں کو زندہ کریں گے ”‏جو قبروں میں ہیں۔“‏ (‏یوحنا 5:‏28، 29‏)‏ اُن سب کی شخصیت ویسی ہی ہوگی جیسی مرنے سے پہلے تھی اور اُن کی یادداشت بھی بحال کر دی جائے گی۔ آسمان پر زندگی پانے والوں کو روحانی جسم کے ساتھ زندہ کِیا جاتا ہے جبکہ زمین پر زندگی پانے والوں کو گوشت پوست کے جسم کے ساتھ زندہ کِیا جائے گا اور وہ بالکل تندرست اور توانا ہوں گے۔—‏یسعیاہ 33:‏24؛‏ 35:‏5، 6؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 15:‏42-‏44،‏ 50‏۔‏

 کن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا؟‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”‏خدا نیکوں اور بدوں دونوں کو زندہ کرے گا۔“‏ (‏اعمال 24:‏15‏)‏ نیکوں سے مُراد خدا کے وفادار بندے ہیں جیسے کہ نوح، سارہ اور ابراہام۔ (‏پیدایش 6:‏9؛‏ عبرانیوں 11:‏11؛‏ یعقوب 2:‏21‏)‏ بدوں سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہیں خدا کے معیاروں کے بارے میں سیکھنے کا موقع نہیں ملا ہوگا اور اِس وجہ سے وہ اِن پر عمل نہیں کر پائے ہوں گے۔‏

 لیکن جو لوگ اِتنے بُرے ہوتے ہیں کہ سدھرنے کو تیار نہیں ہوتے، اُنہیں زندہ نہیں کِیا جائے گا۔ جب ایسے لوگ مرتے ہیں تو وہ ہمیشہ کے لیے ہلاک ہو جاتے ہیں اور اُن کے دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہوتی۔—‏متی 23:‏33؛‏ عبرانیوں 10:‏26، 27‏۔‏

 مُردوں کو کب زندہ کِیا جائے گا؟‏ پاک کلام میں پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ جن لوگوں کو آسمان پر زندگی ملے گی، اُنہیں مسیح کی موجودگی کے دوران زندہ کِیا جائے گا اور مسیح کی موجودگی کا عرصہ 1914ء میں شروع ہوا۔ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏21-‏23‏)‏ جن لوگوں کو زمین پر زندگی ملے گی، اُنہیں یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران زندہ کِیا جائے گا جب زمین فردوس بن جائے گی۔—‏لُوقا 23:‏43؛‏ مکاشفہ 20:‏6،‏ 12، 13‏۔‏

 ہم مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان کیوں رکھ سکتے ہیں؟‏ پاک کلام میں نو ایسے لوگوں کا ذکر ہے جنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا اور اِن سب واقعات کے گواہ موجود تھے۔ (‏1-‏سلاطین 17:‏17-‏24؛‏ 2-‏سلاطین 4:‏32-‏37؛‏ 13:‏20، 21؛‏ لُوقا 7:‏11-‏17؛‏ 8:‏40-‏56؛‏ یوحنا 11:‏38-‏44؛‏ اعمال 9:‏36-‏42؛‏ 20:‏7-‏12؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 15:‏3-‏6‏)‏ لعزر کے زندہ ہونے کا واقعہ خاص طور پر دلچسپ ہے کیونکہ اُنہیں فوت ہوئے چار دن ہو چُکے تھے اور یسوع مسیح نے کافی سارے لوگوں کے سامنے اُنہیں زندہ کِیا تھا۔ (‏یوحنا 11:‏39،‏ 42‏)‏ یسوع مسیح کے مخالفین بھی اِس حقیقت سے اِنکار نہیں کر سکتے تھے کہ اُنہوں نے لعزر کو زندہ کِیا ہے۔ اِسی لیے اُنہوں نے یسوع مسیح اور لعزر دونوں کو مارنے کی سازش کی۔—‏یوحنا 11:‏47،‏ 53؛‏ 12:‏9-‏11‏۔‏

 پاک کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نہ صرف مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ یہ اُس کی خواہش بھی ہے۔ خدا کی یادداشت کی کوئی حد نہیں ہے اِس لیے اُسے اُن تمام لوگوں کے بارے میں ہر تفصیل یاد ہے جنہیں وہ اپنی لامحدود قدرت سے زندہ کرے گا۔ (‏ایوب 37:‏23؛‏ متی 10:‏30؛‏ لُوقا 20:‏37، 38‏)‏ خدا مُردوں کو دوبارہ زندگی دے سکتا ہے اور وہ ایسا کرنا بھی چاہتا ہے۔ پاک کلام میں مُردوں کے جی اُٹھنے کا ذکر کرتے ہوئے خدا کے بارے میں لکھا گیا:‏ ”‏تجھے اپنے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیز کی دلی آرزو ہوگی۔“‏—‏ایوب 14:‏15‏، ترجمہ نئی دُنیا۔‏

مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے غلط‌فہمیاں

 غلط‌فہمی:‏ جب کوئی مُردہ زندہ ہوتا ہے تو اصل میں اُس کی روح اور جسم کا ملاپ ہو جاتا ہے۔‏

 حقیقت:‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اُس کا وجود بالکل ختم ہو جاتا ہے اور اُس کے جسم میں کوئی روح نہیں ہوتی جو اُس کے مرنے کے بعد زندہ رہے۔ (‏واعظ 9:‏5،‏ 10‏)‏ لہٰذا کسی مُردے کے زندہ ہونے کا مطلب روح اور جسم کا ملاپ نہیں ہے بلکہ اُسے نئے سرے سے ایک جیتے جاگتے اِنسان کے طور پر خلق کِیا جاتا ہے۔‏

 غلط‌فہمی:‏ کچھ لوگوں کو زندہ کِیا جاتا ہے اور پھر فوراً ہی مار دیا جاتا ہے۔‏

 حقیقت:‏ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”‏جنہوں نے زندہ ہو کر بُرے کام کیے، اُنہیں سزا ملے گی۔“‏ (‏یوحنا 5:‏29‏)‏ غور کریں کہ اُنہیں یہ سزا اُن کاموں کی بِنا پر ملے گی جو وہ زندہ ہونے کے بعد کریں گے نہ کہ اُن کاموں کی بِنا پر جو اُنہوں نے مرنے سے پہلے کیے ہوں گے۔ یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گے اور جو اُس پر دھیان دیں گے، وہ زندہ ہوں گے۔“‏ (‏یوحنا 5:‏25‏)‏ جو لوگ اُن باتوں پر ”‏دھیان دیں گے“‏ یعنی عمل کریں گے جو اُنہیں زندہ ہونے کے بعد سکھائی جائیں گے، اُن کے نام ”‏زندگی کی کتاب“‏ میں لکھے جائیں گے۔—‏مکاشفہ 20:‏12، 13‏۔‏

 غلط‌فہمی:‏ جب کسی شخص کو زندہ کِیا جاتا ہے تو اُسے بالکل وہی جسم عطا کِیا جاتا ہے جو وہ مرنے سے پہلے رکھتا تھا۔‏

 حقیقت:‏ کسی شخص کی موت کے بعد اُس کا جسم آہستہ آہستہ گل سڑ جاتا ہے اور آخرکار بالکل ختم ہو جاتا ہے۔—‏واعظ 3:‏19، 20‏۔‏