سرِورق کا موضوع:
اپنوں کی موت کا غم بُھلانا آسان نہیں
”میری بچی، روؤ مت۔ خدا جو بھی کرتا ہے، بھلے کے لیے کرتا ہے۔“
یہ بات باربرا * نامی عورت سے اُن کے ابو کے جنازے پر کہی گئی تھی۔ اُن کے ابو ایک کار حادثے میں فوت ہو گئے تھے۔
یہ بات ایک ایسے شخص نے کہی تھی جس کے باربرا کے خاندان کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے۔ لیکن اِس بات سے اُنہیں تسلی ملنے کی بجائے بہت تکلیف پہنچی کیونکہ وہ اپنے ابو سے بڑا پیار کرتی تھیں۔ وہ یہی سوچتی رہتی تھیں کہ ”میرے ابو کی موت سے کسی کا کیا بھلا ہو سکتا ہے۔“ اپنے ابو کی موت کے بہت سال بعد باربرا نے ایک کتاب لکھی۔ اِس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کئی سال بعد بھی اپنے ابو کی موت کے صدمے سے نکل نہیں پائی تھیں۔
باربرا کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی اپنے کی موت کے غم کو بُھلانا آسان نہیں ہوتا۔ اِس میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔ اِسی لیے پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ موت اِنسان کی ”دُشمن“ ہے۔ (1-کُرنتھیوں 15:26) یہ دُشمن ہماری زندگی میں زبردستی گھس آتا ہے۔ اکثر یہ اچانک حملہ کرتا ہے اور ہمارے پیاروں کو ہم سے چھین کر لے جاتا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اِس کے حملے سے بچ نہیں سکتا۔ اِس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے تو ہم بہت لاچار محسوس کرتے ہیں۔
اِن باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوں: ”کسی اپنے کی موت کے غم پر قابو پانے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟ اِس غم پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟ مَیں اُن لوگوں کو تسلی دینے کے لیے کیا کر سکتا ہوں جن کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے؟ کیا ہم اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ مل سکیں گے جو موت کی نیند سو گئے ہیں؟“
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔